حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید صفی حیدر زیدی، سکریٹری تنظیم المکاتب لکھنؤ ہندوستان نے امریکہ کا جامعۃالمصطفیٰ العالمیہ پر پابندی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تاریخی واقعات سے ثابت ہے کہ عوام کی جہالت سے ہمیشہ ظالم حکمرانوں نے فائدہ اٹھایا اور جب بھی عوام علم ودانش کی جانب متوجہ اور اس سے بہرہ مند ہوئی تو یہ دنیا ظالموں اور ستمگروں کے لئے تنگ ہو گئی۔
دین اسلام انسان کی فطرت میں شامل ہے اور یہ انسانی اقدار کا محافظ ہے۔ اور یہ تحفظ بغیر علم و دانش کے ممکن نہیں لہذا رسول اکرمؐ پر نازل پہلی آیت میں حصول علم کی دعوت عام ہے۔ اسی لئے جہل و نادانی کے پرستار رسول اکرمؐ اور قرآن کے دشمن ہو گئے جب کہ انھیں اقرار تھا حضرت محمد مصطفیٰﷺ صادق و امین ہیں۔ اسی طرح حاکم شام حضرت امیرالمومنینؑ کے مقابلہ میں اہل شام کی جہالت لایا تھا۔
تمام ظالمین جانتے تھے کہ جب تک عوام جاہل ہے تب تک انکی حکومت واقتدار قائم ہے اور جب لوگ پڑھ لکھ لیں گے تو انکی حکومت و اقتدار کے لئے خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
لیکن ایک عادلانہ نظام کے لئے عوام کی علم وآگہی لازم ہے لہذا حضرت امام خمینی قدس سرہ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد حکم دیا کہ ’’پورے ایران کو مدرسہ میں تبدیل کر دیا جائے۔ ‘‘ اور یہ تحریک ایران تک محدود نہ رہی بلکہ ایران اسلامی کے ذمہ داروں نے علوم و معارف اہلبیتؑ کا دروازہ سب کے لئے کھول دیا اور پوری دنیا سے ہزاروں طلبہ کے داخلے لے لئے۔
تھوڑا عرصہ نہ گذرا تھا کہ ایک ملک کی تعلیمی تحریک عالمی تحریک میں بدل گئی اور دنیا کے مظلوموں اور کمزوروں کے لئے ایک مضبوط پناہ گاہ بن گئی جس کے بہتر نتائج اور برکتیں مختلف ممالک میں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
آخر کار امریکہ نے جامعۃالمصطفیٰ العالمیہ پر پابندی لگانے کا ارادہ کر لیا جب کہ وہ جانتا ہے کہ جامعۃالمصطفیٰ العالمیہ ایک تعلیمی مرکز اور یونیورسٹی ہے نہ کہ سیاسی۔ جیسا کہ رہبر انقلاب حضرت آیۃاللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای دام ظلہ نے غیر ایرانی طلاب سے دوران ملاقات اس جانب اشارہ بھی کیا تھا۔
ایک تعلیمی مرکز پر پابندی لگانے سے ظاہر ہے کہ عالمی استعمار جاہل سماج کا خواہاں ہے تا کہ انکی استعماری، استحصالی اور ہٹ دھرمی والی سیاست میں کوئی مشکل ایجاد نہ ہو۔
لیکن دشمن جان لے کہ جامعۃالمصطفیٰ العالمیہ ایک ایسا شجرہ طیبہ ہے جس کی جڑیں تمام تشنگان علوم کےوجود کی گہرائیوں میں ثابت اور اس کی شاخیں پانچوں بر اعظم میں پھیلی ہوئی ہیں اور یہاں کے فارغ التحصیل دنیا کے سو ممالک سے زیادہ میں علم و آگہی کے چراغ روشن کرنے میں مصروف ہیں۔